اگر شرکا کی تعداد کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ ہانگ کانگ کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاج ہو سکتا ہے۔ پولیس کے مطابق مظاہرین کی تعداد ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ تھی۔
مجوزہ قانون کے مطابق چین ہانگ کانگ سے سنگین جرائم میں ملوث مطلوب ملزمان کو اس کے حوالے کرنے کی درخواست کر سکتا ہے اور ان کے خلاف چین میں ہی مقدمات چلائے جا سکیں گے۔ ناقدین کے بقول یہ قانون سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے میں چین کی مدد کر سکتا ہے۔
ہانگ کانگ کی چیف ایگزیکٹو کیری لام کی جانب سے بل کی معطلی کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد نے احتجاج میں حصہ لیا۔
کیری لام نے اتوار کے روز بل پیش کرنے پر معذرت کر لی تھی۔ بہت سے مظاہرین جنھیں ہانگ کانگ پر چین کے اثر ورسوخ بڑھنے کا خدشہ ہے، وہ کیری لام سے استعفی بھی مانگ رہے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس قانون کو صرف معطل ہی نہیں بلکہ ختم بھی کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے
حوالگی قانون کے خلاف ہانگ کانگ میں مظاہرےتیانانمن سکوائر: ہانگ کانگ میں شمعوں کا سیلاب
’تیانانمن سکوائر پر مظاہرین کے خلاف کارروائی درست تھی‘
بدھ کے روز ہونے والے مظاہرے کے مقابلے میں یہ احتجاج بنیادی طور پر پرامن تھا۔
واضح رہے کہ بدھ کے روز مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں درجنوں افراد زخمی ہو گئے تھے۔
احتجاج دوپہر کو وکٹوریا سکوائر میں شروع ہوا جس میں زیادہ تو لوگوں نے سیاہ لباس زیب تن کر رکھے تھے۔
مارچ کی رفتار سست رہی کیونکہ بڑی تعداد میں لوگوں نے گلیوں اور ٹرین سٹیشنوں کو بند کر رکھا تھا۔
احتجاج میں شریک 67 سالہ ایک شخض نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ’ کیری لام نے ہانگ کانگ کے لوگوں کے جذبات کو نظر انداز کیا ہے۔‘ انھوں نے کہا ’ گذشتہ ہفتے ہوئے لاکھوں افراد کے مارچ کے بعد انھوں نے ایسے ظاہر کیا جیسے یہ کوئی بڑی بات نہیں۔‘
’دوسری بات یہ کہ ہم ان طالب علموں کے لیے مارچ کر رہے ہیں جن سے پولیس بہت ظالمانہ انداز میں پیش آئی۔ ہمیں ان کے لیے انصاف چاہیے۔‘
تنازعہ کیا ہے؟
برطانیہ کی سابق نو آبادی، ہانگ کانگ سنہ 1997 میں چین کو واپس کیے جانے کے بعد 'ایک ملک، دو نظام' کے اصول کے تحت ایک نیم خود مختار ریاست بن گئی تھی۔
ہانگ کانگ کے اپنے قوانین ہیں اور اس کے رہائشیوں کو وہ شہری آزادی حاصل ہے جو عام چینی باشندوں کو حاصل نہیں ہے۔
ملزمان کی حوالگی کی تجویز اس وقت سامنے آئی جب گذشتہ برس فروری میں ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے تائیوان میں مبینہ طور پر اپنی حاملہ گرل فرینڈ کو قتل کر دیا تھا۔ گزشتہ سال وہ شخص تائیوان سے فرار ہو کر ہانگ کانگ آ گیا تھا۔
ناقدین کے مطابق ملزمان کی حوالگی کے قانون اور ہانگ کانگ کے شہریوں کو چین کے حوالے کرنے سے ان کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔
بہت سے لوگوں کا خدشہ ہے کہ اس قانون سے برطانیہ کی سابق نو آبادی کو چین کے انتہائی ناقص انصاف کے نظام کا سامنا
کرنا پڑے گا اور اس کی وجہ سے ہانگ کانگ کی عدلیہ کی آزادی مزید متاثر ہو گی۔
No comments:
Post a Comment